نادان یہ عورت کیا جانے سب گھات لگائے بیٹھے ہیں
باتوں میں کیسے آئے گی سب بات بتاۓ بیٹھے ہیں
اور کب قدم تیرا رستہ بھٹکے سب نظر جمائے بیٹھے ہیں
یہ مال سمجھتے ہیں تجھ کو بازار سجاۓ بیٹھے ہیں
اور منہ سے تجھے مظلوم کہےسوچوں میں نچاۓ بیٹھے ہیں
یہ بد ہے اور بدکردار بھی ہے صورت کو چھپائے بیٹھے ہیں
تو بہن بھی ہےتو ماں بھی ہے سب رشتے بھلائے بیٹھے ہیں
اگر ایسا نہیں تو چپ کیوں ہے کیوں دین بھلائے بیٹھے ہیں
اور تو ان پر بھروسہ ناکرنا یہ جال بچھاۓ بیٹھے ہیں
خود اپنی حفاظت کرنا یہ شرم مٹاۓ بیٹھے ہیں